کاون: پاکستان میں برسوں جکڑے رہنے والے دنیا کے تنہا ترین ہاتھی کی کہانی

لاہور(لمحہ نیوز / لمحہ اخبار) یہ کہانی ہے دنیا کے سب سے تنہا ہاتھی ’کاون‘ کی جو سری لنکا میں 1981 میں پیدا ہوا۔ وہ صرف چار سال کا تھا جب سری لنکا کی حکومت نے اسے پاکستان کے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کی درخواست پر پاکستان کو تحفے میں دے دیا۔
کاون پاکستان آیا تو اسے اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر رکھا گیا جو کاون کا گھر بن گیا۔ کیونکہ کاون اسلام آباد کے چڑیا گھر کا پہلا اور واحد ہاتھی تھا تو لوگ اسے دور دور سے دیکھنے آتے اور بچے تو کاون پر چڑھ کر بڑے شوق سے تصویریں بناتے۔ یہاں تک کہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے بچپن میں کاون کی سواری کی تھی۔
کاون سب ہی بچوں کا دوست تھا لیکن کاون کو بھی تو ایک دوست کی ضرورت تھی جو اس کے ساتھ رہے، کھائے پیے اور کھیلے کودے۔ لیکن پاکستان کے جنگلوں میں تو ہاتھی ہوتے ہی نہیں۔ تو کاون ہاتھی کا ساتھی لاتے بھی تو کہاں سے؟
لیکن پھر بالآخر کاون کو اس کی سہیلی مل گئی۔ سنہ 1991 میں بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم خالدہ ضیاء نے ایک ہتھنی پاکستان کی حکومت کو تحفے میں دی جسے ’سہیلی‘ کا نام دیا گیا۔
کاون کی طرح سہیلی بھی سری لنکا میں 1989 میں پیدا ہوئی اور وہاں اس کا نام مانیکا رکھا گیا تھا، لیکن جب وہ پاکستان آئی تو اس کا نام سہیلی رکھ دیا گیا۔
کاون کو اپنا ساتھی تو مل گیا لیکن اسے بھی کاون کی طرح زنجیروں میں باندھ دیا گیا اور کاون اور سہیلی دن رات بس انہی زنجیروں میں بندھے رہتے۔ کچھ عرصے بعد سہیلی کی طبعیت خراب ہونے لگی اور اس کے پاؤں میں تکلیف اتنی بڑھ گئی کہ 22 سال کی سہیلی سے کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا تھا۔
اور پھر ایک دن سہیلی اس تکلیف کی وجہ سے دم توڑ گئی۔ جب کاون کی سہیلی ہلاک ہوئی تو تب بھی وہ اور کاون زنجیروں میں ہی بندھے تھے۔
سنہ 2012 میں سہیلی کے مر جانے کے بعد بے چارہ کاون ایک بار پھر اکیلا ہو گیا۔ زنجیروں میں جکڑا کاون اکیلے ہونے کی وجہ سے دن بدن ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا چلا گیا اور وہ ہر وقت یا تو پریشانی میں اپنا سر ایک سے دوسری جانب ہلاتا رہتا یا دیواروں اور درختوں سے سر ٹکراتا۔
کئی سال گزر گئے اور کاون اسی طرح اسلام آباد کے چڑیا گھر میں رہتا رہا۔ پریشان، تنہا، زنجیروں میں بندھا۔
رخصتی کی وجہ کیا؟؟؟
تحفے سے ملا ہاتھی ہم نےپال تو لیا تھا مگر گھر کے دروازے بڑے نہ کر سکے، جنہوں نے بچپن میں کھیلا تھا، اسے دیکھتے دیکھتے جوان ہو گئے لیکن دیکھ بھال کوئی بھی نہ کر سکا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر کے ہاتھی کاون کی کمبوڈیا منتقلی کی یہی وجہ ہے۔ پاکستان میں نامناسب دیکھ بھال کے سبب ہاتھی ‘کاون ‘ بقیہ زندگی جنوب مشرقی ایشیا کے ملک کمبوڈیا کی ایک پناہ گاہ میں گزارے گا۔
ہاتھی کاون کی کمبوڈیا منتقلی سے قبل چڑیا گھر میں ایک الوداعی تقریب بھی رکھی گئی جہاں بچوں نے دل پہ پتھر رکھ کرکاون ہاتھی کو خداحافظ کہا اور گیت گا کر دل کا بوجھ ہلکا کیا۔
36 سالہ کاون کو ایک سال کی عمر میں 1985 میں سری لنکن حکومت نے اس وقت پاکستان کے صدر جنرل ضیاءالحق کو بطور تحفہ پیش کیا تھا جو اس وقت سے اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں موجود ہے۔
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نےبھی الوداع کہہ دیا۔
صدر مملکت عارف علوی کاون ہاتھی کوالوداع کہنے اسلام آباد چڑیا گھر گئے۔ صدرعارف علوی کو کاون ہاتھی کو کمبوڈیا لے جانے کے انتظامات پر بریفنگ دی گئی۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کاون ہاتھی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا امید کرتا ہوں کہ کاون کمبوڈیا کی پناہ گاہ میں خوش رہے گا۔
عدالتی حکم پرہاتھی کاون کی واپسی ۔۔۔ صدر مملکت نے الوداع کہہ دیا ۔۔۔ #Kawan #elephant #Islamabad #IslamabadZoo #IHC pic.twitter.com/JGYhECT59N
— Lamha News (@LamhaNewsPak) November 24, 2020
انہوں نے عملے کو ہدایت کی کہ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے متعلقہ قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی نگہداشت کیلئے مزید اقدامات اٹھائے۔
ہاتھی کی منتقلی کیلئے تیار کردہ خصوصی کیبن چڑیا گھر پہنچا دیا گیا ہے۔ کمبوڈیا کی حکومت نے گزشتہ ماہ کاون کی منتقلی کا پرمٹ جاری کیا تھا۔
کاون ہاتھی کی روانگی کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور
جڑواں شہروں کے شہری اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر کی شان کاون ہاتھی کو مزید نہیں دیکھ پائیں گے۔ اسلام آباد چڑیا گھر کی شان ’’کاون ہاتھی‘‘ کی کمبوڈیا منتقلی کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہوچکی ہے۔ کمبوڈیا کی حکومت کی جانب سےپرمٹ بھی جاری کیا جا چکا ہے۔ کمبوڈیا حکومت کی جانب سے پرمٹ بین الاقوامی ایکسپرٹ ڈاکٹر عامر خلیل کے نام پر جاری کیا گیا۔
متعلقہ حکام کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پرمٹ کے حوالے سے تفصیلات بھی جمع کرا دی گئی ہیں ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے چڑیا گھر میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کاون ہاتھی کو بیرون ملک منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ حکم عدالت کا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 21 مئی 2020 کو مرغزار چڑیا گھر میں رکھے گئے تمام جانوروں کو 60 روز کے اندر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر کی حالت پر تحریری فیصلے میں حکم دیا تھا کہ چیئرمین وائلڈ لائف کی سربراہی میں بورڈ قائم کیا جائے جو جانوروں کی منتقلی کی نگرانی کرے۔
عدالتی حکمنامے میں درج تھا کہ تین دہائیوں سے اسلام آباد کے چڑیا گھر میں کاؤن ہاتھی کو اذیت میں رکھا گیا ہے اور چئیرمین وائلڈ لائف بورڈ ہائی کمشنر سری لنکا سے مشاورت کر کے کاؤن ہاتھی کو 30 روز کے اندر مناسب جگہ پر منتقل کریں اور اس سلسلے میں بین القوامی ماہرین سے بھی رائے لی جائے۔
اس سے قبل مرغزار چڑیا گھر سے محفوظ پناہ گاہوں میں منتقلی کے دوران مبینہ غفلت کے باعث شیراورشیرنی ہلاک ہوئے تھے۔ جانوروں کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔
عدالت میں کیا ہوا تھا؟
عدالتی احکامات کے باوجود چڑیا گھر سے جانوروں کی عدم منتقلی کے کیس پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ کاون سمیت تمام جانور بہت سختیاں جھیل چکے ہیں۔ جانوروں کے حقوق سے متعلق قوانین موجود ہیں ان پر عمل ہی نہیں ہو رہا ہے۔
جج نے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم بھی کاون سے متعلق بات کر چکے ہیں کہ کیسے اس پر ظلم ہوا۔ وزیراعظم کو آپ لوگ بتاتے کیوں نہیں کہ وائلڈ لائف سے متعلق قوانین موجود ہیں؟
چیف کمشنر اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ جانوروں کو متبادل جگہ پر لے جانے کے لئے وائلڈ لائف کو زمین دیں گے۔ جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ عدالت یہ چڑیا گھر ہی ختم کرنے کا فیصلہ دے چکی ہے۔ یہ جانور اسلام آباد میں رکھے ہی نہیں جا سکتے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں مزید کہا کہ چڑیا گھر سے متعلق فیصلے کو کسی نے چیلنج بھی نہیں کیا، پھر اس پرعمل کیوں نہ ہوا؟جج نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین وائلڈ لائف اسلام آباد میں جانوروں کی پناہ گاہ بنانے کی پیشکش لے آئے۔ یہاں آپ انسانوں کا خیال نہیں رکھ پا رہے تو جانوروں کا کیا رکھیں گے۔
سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی نے عدالت کو بتایا کہ وزیر کو بورڈ کا ممبر بنانے کی ابھی منظوری نہیں دی گئی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے خود کابینہ کے فیصلے کی کاپی پیش کی تھی کہ وہ ممبر بن چکی ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا سیکرٹری صاحبہ کیا آپ نے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی؟
عدالت نے تمام فریقین کو فوری معاملے کا حل نکالنے کا حکم دیا اورجانوروں کی منتقلی اور وائلڈ لائف قوانین پر عملدرآمد کا لائحہ عمل تیار کرنے کی بھی ہدایت کی تھی ۔ آخر کار21 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بنیادی ضروریات اور سہولیات کی عدم دستیابی پر وفاقی دارالحکومت کے مرغزار چڑیا گھر کے تمام جانوروں کو محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
معاملہ اُٹھایا کس نے تھا؟؟؟
اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ نے مرغزار چڑیا گھر میں جانوروں کی حالت پراسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور میونسیپل کارپوریشن سے لے کر چڑیا گھر کے انتظامی امور وائلڈ لائف مینجمنٹ کے سپرد کرنے کی استدعا کی تھی۔ وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی نے بھی چڑیا گھر کے انتظامات سنبھالنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے چند اداروں اور اسلام آباد کے شہریوں نے چڑیا گھر کے سامنے مظاہرے بھی کیے تھے۔
کاون ہاتھی کی منتقلی پرامریکی گلوکارہ حکومت پاکستان کی شکرگزار
امریکی گلوکارہ ،،شیر،، نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر تین ٹویٹ کیے جنہیں ان کے ہزاروں فالورز نے ری ٹویٹ کیا ۔ گلوکارہ نے لکھا کہ یہ میری زندگی کو بہت بڑا لمحہ ہے۔

کاون ہاتھی کی چڑیا گھر سے رہائی کیلئے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر مہم چلائی گئی تھی اس مہم میں امریکی گلوکارہ شیر بھی پیش پیش رہی تھیں۔