سعید غنی حقیقی مسئلے سے توجہ ہٹانےکی ناکام کوشش کررہے ہیں: علی زیدی
اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے کر جاؤں گا، وفاقی وزیر

اپنے بیان میں علی زیدی کا کہنا تھا کہ عزیر بلوچ برسوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں ہے اور اس کی سرپستی کرنے والے طاقتور سیاستدانوں کے نام جے آئی ٹی میں ہیں۔ جو آزاد گھوم رہے ہیں، انہیں قانون کے کٹہرے میں آنا چاہیے
۔
انھوں نے کہا کہ نازبلوچ پی ٹی آئی میں تھیں اور اب پیپلزپارٹی میں ہیں، کیاوہ اب بھی اپنے گزشتہ نظریے پرقائم ہیں؟
علی زیدی کا کہنا تھا کہ میں نے کھلی درخواست کی تھی کہ عزیر بلوچ کو رینجرز کی تحویل میں دیاجائے کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ عزیر بلوچ کو سندھ حکومت کی تحویل میں مروا دیا جانے گا ، خود عزیربلوچ نے بھی جے آئی ٹی میں اعترافی بیان کے بعد اس بات کا اظہار کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بلدیہ فیکٹری سانحے میں 250 معصوموں کی جان گئی، جےآئی ٹی میں کہا گیا کہ بلدیہ فیکٹری سانحے پر سندھ پولیس سے کوتاہی ہوئی جب کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں تجویز کیاگیا بلدیہ فیکٹری سانحےکی ایف آئی آردوبارہ درج کی جائے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ سندھ حکومت 4 سال سے کیوں سو رہی تھی؟ میں نے اپنے شہر کے تمام لوگوں کے لیے آواز بلند کی جو گینگ وار اور دہشت گردوں سے متاثر ہوئے، اور اپنے خاندان کی سیکیورٹی اور اپنا سب کچھ داؤپر لگا دیا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ میرے اور میرے خاندان کے لیے قانون نافذکرنے والے اداروں نے تھریٹ الرٹ جاری کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میں اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے کر جاؤں گا، سپریم کورٹ میں جانے والا معاملہ کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا لہٰذا امید ہے معزز جج صاحبان تمام شواہد دیکھ کر انصاف دیں گے۔
گذشتہ دنوں سندھ حکومت نے عزیر بلوچ سمیت سابق چیئرمین فشری نثار مورائی اور بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹس جاری کی تھیں۔ ت علی زیدی کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے اصل جے آئی ٹی رپورٹس چھپائی ہیں ، جس کے بعد سے دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔