fbpx
سب کے لیے سب کچھگلوبل ویلیج

آیا صوفیہ کی میوزیم کی حیثیت ختم، مسجد میں بدلنے کا صدارتی حکم نامہ جاری

ایک ہزار سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا گرجا رہا۔

جولائی 13, 2020 | 4:02 صبح

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے استنبول کی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔

 یہ صدارتی حکم نامہ ترکی کی ایک عدالت کے اس فیصلے کے بعد جاری کیا گیا ہے جس میں آیا صوفیہ کی عمارت کی میوزیم کی حثییت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ جولائی کے شروع میں کاؤنسل آف سٹیٹ نے آیا صوفیہ میوزیم استنبول کو مسجد میں تبدیل کرنے سے متعلق فیصلہ مؤخر کیا تھا جو جمعے کو سنایا گیا۔

عدالت کا فیصلہ :

جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتا ترک نے 1934 میں آیا صوفیہ کو میوزیم بنانے کی منظوری دی تھی اور اس وقت سے اسے سیکولرازم کی ایک نشانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے کھلی ہے۔

لیکن ترکی کی سب سے اعلیٰ انتظامی عدالت، کونسل آف سٹیٹ نے جمعے کو اپنے فیصلے میں لکھا ‘ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تصفیے کی دستاویز میں اسے مسجد کے لیے مختص کیا گیا لہذا قانونی طور پر اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے’1934 کا کابینہ کا فیصلہ جس میں اس عمارت کے مسجد کے کردار کو ختم کر کے میوزیم میں تبدیل کیا گیا وہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔‘

آیا صوفیہ کی تاریخ:

یہ معروف عمارت استنبول کے فیتھ ڈسٹرکٹ میں سمندر کے کنارے واقع ہے۔

بازنطینی بادشاہ جسٹنیئن اول نے اس کی تعمیر کا حکم سنہ 532 میں دیا تھا جب اس شہر کا نام قسطنطنیہ تھا۔  جو بیزنٹائن سلطنت (مشرقی رومی سلطنت ) کا دارالحکومت بھی تھا۔ اس عمارت کی تعمیر کے لیے سامان بحیرہ روم کے پار سے لایا گیا تھا۔

سنہ 537 میں جب یہ عمارت مکمل ہوئی تو اسے آورتھوڈوکس چرچ کے سربراہ مقام کا درجہ دیا گیا۔ اہم ترین شاہی تقریبات جیسے کہ تاج پوشی اس عمارت میں ہونے لگیں۔

ایک ہزار سال تک یہ عمارت دنیا کا سب سے بڑا گرجا رہی۔

 

تقریباً نو سو سال تک یہ عمارت آورتھوڈوکس گرجا گھر رہی۔  13ویں صدی میں کچھ عرصہ کے لیے یہ عمارت کیتھولک چرچ کے زیرِ انتظام بھی رہی، جب چوتھی صلیبی جنگ میں یورپی حملہ آوروں نے قسطنطنیہ کا کنٹرول سنبھال کر یہاں لوٹ مار کی۔

تاہم 1453 میں سلطان محمد دوئم نے قسطنطنیہ پر قبضہ کیا اور اسے سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بنا لیا، انھوں نے شہر کا نام تبدیل کر کے استنبول رکھا اور یوں بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔

اس عمارت میں داخل ہوتے وقت سلطان محمد دوئم کا اصرار تھا کہ اس کی تعمیرِ نو کی جائے اور اسے ایک مسجد بنایا جائے۔ انھوں نے اس میں جمعے کی نماز بھی پڑھی۔

سلطنتِ عثمانیہ کے معماروں نے آورتھوڈوکس نشانیاں مٹا دیں اور عمارت کے ساتھ منار کھڑے کر دیے۔

1616 میں استنبول کی معروف مسجد سلطان احمد المعروف نیلی مسجد کی تعمیر تک آیا صوفیہ ہی شہر کی مرکزی مسجد تھی۔

1918میں سلطنتِ عثمانیہ کو پہلی جنگِ عظیم میں شکست ہو گئی۔ ترکی میں قوم پرست سیاسی قوتیں پروان چڑھی اور جدید ترکی نے جنم لیا۔

مصطفیٰ کمال اتاترک نے عمارت کو ایک میوزیم بنانے کا حکم دیا اور 1935 میں اسے عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔ یہ ترکی کی اہم ترین سیاحتی عمارتوں میں سے ایک ہے۔

ترکی میں قدامت پسند مسلمان کئی برسوں سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس عمارت کو ایک مسجد بنایا جائے۔ تاہم حزبِ مخالف میں موجود سیکیولر سیاسی قوتوں نے اس اقدام کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ صدر اردوغان نے اس مطالبے کی تائید کرتے ہوئے میوزیم بنائے جانے کو ایک غلطی قرار دیا تھا اور مشیران کو کہا تھا کہ وہ اسے واپس مسجد بنانے کا حل نکالیں۔

اس عمارت کو اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو عالمی ورثہ قرار دے چکا ہے۔ یونیسکو نے ترکی سے کہا تھا کہ وہ اس کی حیثیت تبدیل نہ کرے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button