fbpx
اخبارسوشل میڈیا

خیبر پختونخوا میں اب پیپر باہر کی یونیورسٹیوں میں چیک ہوں گے

جولائی 16, 2020 | 11:02 شام

گورنر خیبر پختونخواہ شاہ فرمان کے احکامات کے مطابق اب یونیورسٹی طلبہ اور طالبات کے پیپر ان کے اساتذہ چیک نہیں کریں گے بلکہ دوسری یونیورسٹی کے اساتذہ کو پیپر چیک کرنے بھجوائے جائیں گے، جہاں مارکنگ کی جائے گی اور پھر رزلٹ تیار کیا جائے گا۔

اپریل میں اس حوالے سے ہونے والی میٹنگ میں بہت سی باتوں پر گفتگو ہوئی تھی مگر گورنر شاہ فرمان نے حالیہ فیصلے نے عجیب سی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ اب ساری یونیورسٹیاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی طرح پیپرز اور اسائنمنٹس چیکنگ کے لیے باہر بھجوائے گیں۔

یعنیٰ پہلے مڈ کے پیپرز دوسری یونیورسٹی بھجوائے جائیں گے جہاں سے مارکنگ کے بعد فائنل ٹرم کے پیپرز بھجوائے جائیں گے اور یوں پیپر کی مارکنگ کے بعد یہ شعبہ امتحانات میں آ جائیں گے جس کے بعد رزلٹ اناﺅنس کیا جائے گا۔

 نوٹیفیکیشن میں یہ ذکر نہیں ہے کہ پیپرز کون بنائے گا؟ اور کون فیصلہ کرے گا کہ پیپرز کس یونیورسٹی کو بھیجے جائیں گے اور پیپر چیکنگ کے علاوہ اسائنمنٹ، کوئزز، پریزنٹیشن کے مارکس کون دے گا؟

 سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ملا جلا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کچھ طالب علم اس فیصلے پر خوشی تو کچھ مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک صارف کے مطابق شاہ فرمان جیسے بھی گورنر ہوں لیکن ایک فیصلہ کام کا کیا ہے کہ ہمیں ظالم اساتذہ سے نجات دلا دی۔

ایک اور طالبعلم نے لکھا فیورٹزم سے چھٹکارا مل گیا ہے۔ اب کوئی استاد کے آگے پیچھے نہیں ہو گا نہ ہی اساتذہ کی بے جا تعریف کی جائے گی۔

بہت سے یونیورسٹی اساتذہ اس فیصلے سے خوش تھے کہ اللہ نے ہماری سن لی ہے اب انہیں اب اپنے طلبہ کے پیپرز چیک نہیں کرنے پڑیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک رزلٹ تیار نہیں ہو جاتا ان طلبہ کے باعث ہماری نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ اب آرام سے اگر دوسری یونیورسٹی کے پیپرز آگئے تو چیک کر لیں گے۔

ایک طالبہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ میری ایک ٹیچر میرے ساتھ بہت پرسنل تھی جس کے باعث میری سی جی پی اے کم رہی ہے۔ اگر یہ پالیسی پہلے بنتی تو مجھے اپنی ٹیچر کے عتاب سے چھٹکارا مل جاتا۔ لیکن دوسری جانب ان کا کہنا تھا کہ نالائق طلبہ اور طالبات کے لیے اب سمسٹر سسٹم میں پڑھنا ناممکن ہو گیا ہے کیونکہ اپنا ٹیچر کچھ نہ کچھ مارکس دے کر پاس کر ہی لیتا ہے، اب تو باہر پیپر چیک کرنے والے تو جو لکھا ہو گا اس کے مطابق ہی نمبر دیں گے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button