لگتا ہے کراچی کے لوگوں کے ساتھ دشمنی ہے،چیف جسٹسنے میئر کراچی کو جھاڑ

چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بلدیاتی مسائل اور تجاوزات سمیت بل بورڈ گرنے کے واقعے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے میئر کراچی کو چھاڑ پلا دی، کرنٹ لگنے کے واقعات پرسی ای او کے الیکٹرک کو فوری طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی کے بلدیاتی مسائل اور تجاوزات سمیت بل بورڈ گرنے کے واقعے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس میں میئر کراچی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، کمشنر کراچی اور دیگر اعلیٰ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پورے شہر میں بل بورڈ لگےہوئے ہیں،ہر جگہ آپ کو بل بورڈز نظر آئیں گے، اگر یہ بل بورڈ گر گئے تو بہت نقصان ہوگا، عمارتوں پر اتنے بل بورڈز لگےہیں کہ کھڑکیاں بند ہوگئی ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، ہرآدمی خود مارشل لاء بنا بیٹھا ہے،سندھ حکومت کی رٹ کہاں پر ہے؟
وکیل ڈی ایم سی نے عدالت کو بتایا کہ لوگ اپنے گھروں پر بل بورڈ لگا دیتے ہیں، جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ 5سال کی تحقیقات کراتے ہیں کس نے بل بورڈز لگائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل سےسوال کیا کہ کوئی ہے جو اس شہر کو صاف کرے؟آپ کا آنا جانا اُس جگہ سے ہے جہاں شہر صاف ہوتا ہے، یہاں بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوبتے ہیں، میری گاڑی کا پہیا بھی گٹر میں چلا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ بھی آپ لوگوں کا شہر ہے، مجھے تو لگتا ہے کراچی کے لوگوں کے ساتھ دشمنی ہے، سندھ حکومت کی بھی اس شہر سے دشمنی ہےاور لوکل باڈیزکی بھی دشمنی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ میئر کراچی کہتے ہیں میرے پاس اختیارات نہیں، اگر اختیارات نہیں تو گھر جاؤ، کیوں میئر بنے بیٹھے ہو۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے میئر کراچی سےسوال کیا کہ آپ کب جائیں گے میئر کراچی وسیم اختر نے جواب میں کہا کہ 28 اگست کو مدت ختم ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جاؤ، جان چھوٹے شہر کی، مستقل کراچی کے میئرز نے شہر کو تباہ کر دیا ہے، کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں ہے، لوگ آتے ہیں جیب بھر کر چلے جاتے ہیں شہر کیلئے کوئی کچھ نہیں کرتا۔
جسٹس گلزار نے ریمارکس میں کہ کے الیکٹرک والے بھی یہاں مزے کر رہے ہیں، بجلی والوں نے باہر کا قرضہ کراچی سے نکالا ہے۔