اب سمندری پانی کو آدھے گھنٹے میں پینے قابل بنانا ممکن ہوگا

آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کی جانب سےجاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کی تحقیقاتی ٹیم نےایک ایسی اہم ٹیکنالوجی تیار کی ہے جو 30 منٹ سے بھی کم وقت میں سمندری پانی کی بڑی مقدار کو پینے کے لیے محفوظ بنا سکتی ہے۔
بیان کے مطابق اس پیشرفت سے دنیا کے لاکھوں افراد کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہوسکے گی اور اس سے توانائی کو موجودہ صفائی کے طریقوں سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں استعمال کیا جاسکے گا۔
اس منصوبے کی قیادت کرنے والے پروفیسر ہنٹنگ وانگ نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’دور دراز رہنے والے لوگ اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘
یہ کیسے کام کرتا ہے؟
خصوصی طور پر تیار کیا گیا یہ فلٹر روزانہ سیکڑوں لیٹر پینے کا پانی پیدا کرسکتا ہے اور اس کو صاف کرنے کے لیے صرف سورج کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس عمل کو کم توانائی، کم لاگت والا اور پائیدار بناتا ہے۔
فلٹر کی تیاری کے لیے آرگینو میٹیلک مرکبات یا ایم او ایفس استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں دھات شامل ہوتا ہے جن سے کرسٹل کا مواد تیار ہوتا ہے۔
صاف کرنے کے عمل کے دوران فلٹر، جس کا نام پی ایس پی- ایم آئی ایل – 53 ہے، پہلے نمک کو جذب کرتا ہے اور پھر اسے سورج کی روشنی میں رکھا جاتا ہے تاکہ اسے دوبارہ تخلیق کیا جاسکے۔اس عمل میں چار منٹ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔اس دوران فلٹر دوبارہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس سے پانی میں موجود نمک کو جذب کیا جاسکے۔
عالمی ادارہ صحت نے تجویز دی ہے کہ اچھے معیار کے پینے کے پانی میں600 ملی گرام فی لیٹر سے بھی کم کل تحلیل شدہ ٹھوس مادے (ٹی ڈی ایس) ہونا چاہیے۔
محققین صرف آدھے گھنٹے میں 500 ملی گرام سے بھی کم ٹی ڈی ایس حاصل کرنے اور سورج کی روشنی میں دوبارہ استعمال کے لیے ایم او ایف فلٹر کو دوبارہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
یہ عمل پانی سے نقصاندہ ذرات کو فلٹر کرنے اور روزانہ ایک کلوگرام ایم او ایف 139.5 لیٹر صاف پانی پیدا کرنے میں کامیاب رہا۔
موناش یونیورسٹی کے شعبہ کیمیکل انجینیئرنگ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر وانگ دنیا میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے اس کی صفائی کو ایک قابل عمل راستہ سمجھتے ہیں۔
اس ٹیکنالوجی میں کم توانائی کی کھپت اور اس عمل کے دوران کیمیکلز کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے وانگ کا کہنا ہے کہ یہ نئی شمسی تونائی والی ٹیکنالوجی مستقبل کے صاف پانی کے مسئلے کے حل کا حصہ ہوسکتی ہے۔
پروفیسروانگ کا مزید کہنا تھاکہ اسے عوام کے لیے سستا بنانے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
‘لیبارٹری میں بنایا گیا مواد سستا نہیں ہے۔ بڑے پیمانے پر جب اس کی تیاری کی جاتی ہے تو اس کی پیداواری لاگت میں نمایاں کمی آنے کی توقع کی جاتی ہے۔‘