
جس قسم کا قانون قطر میں متعارف کروایا گیا ہے، متحدہ عرب امارات نے اسے 2015 میں ہی متعارف کر دیا تھا۔
کورونا کی وبا کے دوران سینکڑوں مزدوروں کی نوکری ختم ہو گئی ہے۔ ان میں سے متعدد ایسے تھے جنہیں قطر میں دوبارہ نوکریاں مل سکتی تھیں
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کام کرنے والے کچھ پاکستانی مزدوروں نے بتایا کہ نوکری بدلنے کے لیے کفیل کی اجازت لینے کی ضرورت نہ ہونا ایک بہت اہم خبر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کا استحصال نہیں کیا جا سکے گا۔ انھوں نے بتایا کہ کورونا کی وبا کے دوران سینکڑوں مزدوروں کی نوکری ختم ہو گئی۔ ان میں سے متعدد ایسے تھے جنہیں قطر میں دوبارہ نوکریاں مل سکتی تھیں لیکن کفیل کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کئی کو وطن واپس لوٹنا پڑا۔
نئے قانون سے راحت تو ملی ہے لیکن قطر میں کام کرنے والے تقریباً تین لاکھ انڈین مزدوروں کے سر پر بے روزگاری کی تلوار اب بھی لٹک رہی ہے۔
عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اشیا کی دکان چلانے والے نیاز صدیقی نے بتایا غیرملکی مزدوروں میں نوکری کھونے کا خطرہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے، لیکن وبا کے پھوٹنے کے بعد سے ہزاروں مزدوروں کی نوکریاں چلی گئیں۔ اب بے روزگاری کا خطرہ اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔’