
معاف کیجیئے گا کہ وہ بھی ایک عورت تھی
معاف کیجیئے گا کہ میں بھی ایک مرد ہوں
معاف کیجیئے گا کہ وہ دودرندے بھی اب تک مرد ہی کہلاتے ہیں جنھوں نے رات کے پچھلے پہر ہائی وے پر تین بچوں کے ساتھ اکیلی عورت دیکھ لی ۔ جس عورت نے صرف کزن اور پولیس کو بتایا تھا کہ وہ اکیلی پڑ گئی ہے اور دو درندے اس سڑک پر پیدل پہنچ گئے جس کے دونوں طرف انسانوں کے قد سے اونچی فولادی تاریں کنچھی ہوئی تھیں ۔
معاف کیجیئے گا کہ وہ بھی مرد ہی تھے جنھوں نےقریب سے گاڑی میں گزرتے ہوئے دو درندوں کو ایک عورت کو گھیرتے ہوئے دیکھا تھا اور وہاں رُکے نہیں تھے۔
معاف کیجیئے گا کہ وقوعہ دیکھنے والوں نے اس پولیس کو فون کرنا ہی کافی سمجھا جس کا سی سی پی او بھی ایک مرد تھا ۔ اور سی سی پی او صاحب آپ بھی معاف کیجئے گا کہ وہ عورت تھی اور رات کو گھر سے نکل آئی تھی ۔وہ بھی پولیس میں ہوتی تو اسے بھی یقیناً پتہ ہوتا کہ شہر میں کیسے کیسے درندے آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں ۔ بس عورت ہونے کے ناطے اپنی سادگی سےمار کھا گئی کہ لاہور پولیس کے سربراہ اب آپ ہیں اور وہ اب محفوظ ہے۔
معاف کیجیئے گا کہ سی سی پی او لاہور کے موقف کو ٹھیک کہنے والے فیصل واوڈا بھی ایک مرد ہی ہیں،،، اور معاف کیجیئے گا کہ ان سب مردوں میں ، میں بھی ایک مرد ہی ہوں ۔ لیکن سچ پوچھیں تو آج ان سب مردوں میں مجھے اپنا مرد ہونا اچھا نہیں لگ رہا ۔ میں تو سمجھتا تھا کہ مرد محافظ ہوتے ہیں مظلوموں کے۔ میں آج بہت شرمندہ ہوں کہ مرد نام کے دو درندوں نے ایک عورت کو اکیلے دیکھ کر شکار کر لیا۔ میں آج انتہائی شرمندہ ہوں کہ میرے مرد قبیلے کے دو درندوں نے ایک ماں کو اس کے بچوں کے سامنے شیشیے توڑ کر سڑک پر نکال لیا۔ میرا دل ڈوب رہاہے یہ سوچ کہ ان بچوں پہ کیا بیتی ہو گی جن کے سامنے دو انسانی شکلوں والے جانور ڈنڈے مار مار کر ان کی ماں کے بازو اور ٹانگیں توڑتے رہے،،،،، اور وہ کم سن ہاتھ جوڑتے رہے ۔ میری آنکھوں میں کالے بادل گِھر آئے ہیں جب سے میں نے جانا ہے کہ کچے پکے راستوں پرگھسٹتی ہوئی اس عورت پر وہ طوفانی رات کیسے گزری تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کیجیئے گا کہ میں اب مرد کہلانا نہیں چاہتا ۔ اس وقت تک تو باالکل نہیں جب تک عورت کو ہی قصور وار کہنے والے مرد سی سی پی او ، اور فیصل واوڈا جیسے اس کے حمایتی وزارتوں میں بیٹھے ہیں۔مجھے معاف کیجیئے گا ۔
لیکن معاف کیجیئے گا یہ معاملہ مرد اور عورت کا نہیں ہے ۔ آج دو مردوں نے ایک عورت کو پکڑا ہے ، کل چار مرد مل کر ایک مرد کو بھی پکڑ سکتے ہیں ۔ اسے الٹا لٹکا کر کڑکی بھی لگا سکتے ہیں اور ننگے ٹھنڈے فرش پر الٹا لٹا کر رولر بھی پھیر سکتے ہیں ۔ دو درندوں کو ڈھونڈنے کے لیے چھ آٹھ مرد درجنوں مردوں کی کھال بھی کھینچ سکتے ہیں ۔ کیونکہ ہماری محافظ آنکھیں درندوں کو پہچان نہیں پاتیں ،،، اگر پہچان پاتیں تو ان دو درندوں کو شکار کرنے سے پہلے ہی نہ پکڑ لیتیں۔ یہ درندے دودھ کے دھلے تو ہوں گے نہیں کہ انھوں نے اس سفاکی سے پہلے کوئی جرم کیا ہی نہ ہو۔
اورموٹر وے زیادتی کیس پر یہ کہنے والوں کہ اس عورت کی عزت اب کون واپس لائے گا،،،، آپ بھی معاف کیجیئے گا کہ یہ معاملہ عزت کا بھی نہیں ہے۔ وہ عورت آج بھی اتنی ہی عزت دار ہےجتنی کل تھی ۔ وہ بے بسی کی حالت میں مجرموں کا شکار ہوئی ہے ۔
معاف کیجیئے گا وہ بے قصور ہے ، قصور وار تو وہ ہیں جواس کے حوالے سےاپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر سکے۔ اور اب اُسے ہی قصور وار دے رہے ہیں۔
معاف کیجیئے گا۔۔۔
تحریر: مدثر رانا