پاکستان میں کوئی پالیسی ہی نہیں، دواوٗں کا دوسرے ملکوں سے تقابل

پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کی پالیسی: ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی شکایات کتنی حقیقی ہیں؟
ادویات کی قیمتوں سے متعلق پالیسی کو پاکستان میں سیاسی مسئلہ بھی سمجھا جاتا ہے اور اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق حکومتیں خود سے قیمتوں کا تعین کرنے سے کتراتی ہیں۔ تاہم صارفین کی تنظیموں کے نمائندوں کے مطابق دوا ساز کمپنیاں خود ہی قیمتیں بڑھاتی رہتی ہیں اور متعلقہ حکومتی ادارے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں۔
پاکستان میں کتنی غیر ملکی اور ملکی دوا ساز کمپنیاں ہیں؟
پاکستان میں دوا سازی کے شعبے میں اس وقت چوبیس غیر ملکی کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ تاہم پاکستان میں کام کرنے والی ان غیر ملکی کمپنیوں کی تعداد گذشتہ دس پندرہ سالوں میں چالیس سے چوبیس ہوئی ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والی چالیس غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں میں سے کچھ تو ملک سے نکل گئیں جو ان میں سے کچھ دوسری کمپنیوں میں ضم ہو چکی ہیں۔ ان غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کا دوا سازی کی صعنت کی پیداوار میں تقریباً پنتالیس فیصد حصہ بنتا ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں کے مقابلے میں پاکستان میں کام کرنے والی مقامی دوا ساز کمپنیوں کی تعداد سات سو پچاس ہے۔ تاہم ان میں سے سو کمپنیاں مقامی کمپنیوں کی پیداوار کا تقریباً ستانوے فیصد پیدا کرتی ہیں جب کہ باقی چھ سے پچاس کمپنیوں کا اس پیداوار میں حصہ صرف تین فیصد ہے۔
غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کی نمائندہ تنطیم فارما بیورو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ ٹیمی حق نے غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دوا سازی صنعت کی بنیاد غیر ملکی کمپنیوں نے ہی رکھی تھی، ان کے سرمائے اور تحقیق نے پاکستان میں دوا سازی کی صنعت کو پروان چڑھایا تاہم بد قسمتی سے دوا سازی سے متعلق پالیسیوں میں عدم تسلسل نے بہت سی غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ کر واپس جانے پر مجبور کر دیا جو غیر ملکی کمپنیوں کے پاکستان میں گھٹتی تعداد سے واضح ہے۔ ان کے مطابق آج سے بیس سال پہلے پاکستان میں چالیس غیر ملکی کمپنیاں دوا سازی کی صنعت میں کام کر رہی تھیں جو اب گھٹ کر چوبیس رہ گئی ہے اور ان کی تعداد کے گھٹنے کا مزید امکان ہے۔

غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کو کیا مسائل درپیش ہیں؟
پاکستان میں دوا سازی کے شعبے میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ادویات کی قیمتوں کی پالیسی ہے۔
عائشہ نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان میں سن دو ہزار ایک میں ادویات کی قیمتوں کو منجمد کر دیا گیا۔ انھوں نے بتایا ادویات کی قیمتیں بارہ تیرہ سال تک ایک خاص سطح پر منجمد رہیں جب کہ دوسری جانب ان کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ اس عرصے میں کافی ساری غیر ملکی کمپنیاں پاکستان سے نکل گئیں کیونکہ ادویات کی قیمتوں کے منجمد ہونے سے ان کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ سن دو ہزار تیرہ میں قیمتوں کے از سر نو تعین کے لیے ایک پالیسی متعارف کرائی گئی تاہم یہ پالیسی کچھ دنوں واپس لے لی گئی۔ اس اقدام کے خلاف دوا ساز کمپنیاں عدالت میں چلی گئیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں حکومت کو ایک نئی پالیسی بنانے کا کہا۔ ایک نئی پالیسی سن دو ہزار اٹھارہ میں متعارف کرائی گئی جس میں ادویات کی قیمتوں کو کنوزیر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے ساتھ منسلک کیا گیا اور ایک خاص فارمولے کے تحت ادویات کی قیمتوں کے تعین کا فارمولہ پیش کیا گیا۔
عائشہ نے بتایا کہ اس پالیسی کو چلنے نہیں دیا گیا اور اسے رول بیک کرنے کی کوشش کی گئی اور اس پر عملدر آمد نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں میں تشویش ہے کہ اگر پالیسی پر عمل در آمد نہیں ہوتا تو ان کے لیے پیداواری لاگت کو پورا کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) میں ریسرچ فیلو اور دوا ساز صنعت پر تحقیق کرنے والے شاہد محمود نےکہا کہ دوا ساز کمپنیوں کے پرائس پالیسی کے بارے میں تحفظات حقیقی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’دوا سازی کی صنعت ایک تجارتی اور کاروباری شعبہ ہے۔ تیرہ سال تک ادویات کی قیمتیں منجمد رکھی گئیں اور پھر جو پالیسی لائی گئی اس پر عمل نہیں ہو گا تو کمپنیوں کے لیے کاروبار کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ دس روپے کی چیز بنائیں اور حکومت آپ کو کہے کہ آپ اسے دو روپے کی بیچیں۔ ‘
شاہد نے بتایا کہ پاکستان میں دوا سازی کے شعبے میں ان مسائل کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں ادویات تیار کرنے سے کتراتی ہیں۔انھوں نے وضاحت کی کہ پاکستان میں اسی ہزار سے زائد ادویات رجسٹرڈ ہیں لیکن ملکی و غیر ملکی کمپنیاں بمشکل دس ہزار دوائیں ہی تیار کرتی ہیں۔ انھوں نے دو ہزار اٹھارہ کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی میں طے ہوا تھا کہ ملک میں افراط زر کی شرح کے آدھے کے حساب سے ادویات کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی تاہم اس پر عملد در آمد نہیں ہو سکا۔
چیئرمین کنزیومر رائٹس پروٹیکشن کونسل آف پاکستان شکیل بیگ نے غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کے اس موقف کو رد کیا کہ انہیں پاکستان میں کاروبار پر منافع نہیں مل رہا۔ انھوں نے اسے صرف غیر ملکی کمپنیوں کی دھمکی قرار دیا ہے اور ماضی میں چالیس سے چوبیس کمپنیاں رہ جانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ بہت سی کمپنیاں آپس میں ضم ہو گئی ہیں۔ انھوں نے کہا یہ غیر ملکی کمپنیاں ابھی بھی پاکستان میں بے تحاشا منافع کما رہی ہیں۔

پاکستان میں کام کرنے والی چالیس غیر ملکی کمپنیوں کے مقابلے میں دوا سازی کی صنعت کی ملکی کمپنیوں کی تعداد سات سو پچاس ہے تاہم ان میں سے سو کمپنیوں کا پیداوار میں ستانوے فیصد حصہ ہے جب کہ باقی چھ سو پچاس کمپنیوں کا حصہ صرف تین فیصد ہے۔ ملکی کمپنیاں بھی قیمتوں کی مقرر کرنے کی پالیسی کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں اور اس پر عملدرآمد نہ ہونے سے کاروباری طور پر خسارے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین اور ایک مقامی دوا ساز کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر قیصر وحید نے اس سلسلے میں کہا کہ پاکستان میں بننے والی ادویات کا تقریباً سارا خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے جس کی لاگت ڈالر کی قدر سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ایک بہت بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ملکی کمپنیوں کے کاروبار پر بھی اثر پڑا ہے۔ انھوں نے کہا کئی کئی سال تک ادویات کی قیمتیں منجمد رکھنے اور قیمتوں کی پالیسی متعارف کرانے کے بعد اس پر عملدرآمد نہ ہونے سے دوا ساز کمپنیاں کس طرح کاروبار چلا سکتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب حکومت نے خود ایک پالیسی بنائی تو اس پر عملدرآمد کرنا بھی اسی کام ہے۔ انھوں نے کہا کہ نہ صرف ادویات بنانے کو سارا خام مال باہر سے منگوایا جاتا ہے بلکہ اس صنعت کے لیے مشینری اور آلات بھی درآمد کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پیداواری لاگت بڑھ رہی ہے لیکن قیمتوں کے تعین کے بارے میں پالیسی غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے۔
شکیل بیگ نے ملکی دوا ساز کمپنیوں کے کاروبار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملکی کمپنیاں اتنا زیادہ نفع کما رہی ہیں کہ یہ ہر سال سیکڑوں ڈاکٹروں کو بیرون ملک سیر و تفریح پر بھیجتی ہیں۔ ان کے گھروں میں ہوم اپلائنسز ڈلواتی ہیں اور بعض صورتوں میں تو انھوں نے ڈاکٹروں کو گھر اور ہسپتال بھی بنا کر دیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی کاروبار میں گھاٹے کی شکایت میں کوئی حقیقت نہیں۔
چیئرمین کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کوکب اقبال نے بتایا کہ پاکستان کی ملکی دوا ساز کمپنیوں کے مالکان کا صرف ماضی کھنگال لیں تو پتا چل جائے گا کہ ان کمپنیوں نے نفع دیا یا گھاٹے میں مال بیچا۔ انہوں نے کہا اس شعبے سے وابستہ جن افراد محدود پیمانے پرکام شروع کیا تھا آج بہت بڑے پلانٹ چلا رہے ہیں جو ادویات کے منافع بخش کاروبار کی وجہ سے ممکن ہوا۔
پاکستان میں دوائیں سستی ہیں یا مہنگی؟
پاکستان میں دواؤں کے سستے یا مہنگے ہونے پر بات کرتے ہوئے عائشہ ٹمی حق نے کہا کہ ملک میں دواؤں کی قیمتیں کم ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں دنیا بھر سے سستی دوائیں دستیاب ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک میں انڈیا کے مقابلے میں بھی دوائیں سستی ملتی ہیں۔
ڈاکٹر قیصر وحید نے بھی دواؤں کے سستے ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کی وجہ بیان کرتے ہو کہا کہ پاکستان میں دوا ساز کمپنیاں سیٹھوں کی ہیں اور انڈیا کے برعکس یہاں پر اسٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ کمپنیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ انڈیا میں اسٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ کمپنیوں کو اپنے شیئر ہولڈرز کو اپنے منافع میں حصہ دینا ہوتا ہے جس کی وجہ سے انہیں قیمتوں کی اچھی قیمت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ پاکستان میں ان کمپنیوں کے ملکیت سیٹھوں کے پاس ہے جو جتنا منافع ملتا ہے اپنے پاس ہی رکھتے ہیں اس لیے ادویات کی کم قیمتوں کے باوجود کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔
شاہد محمود نے اس سلسلے میں کہا کہ دواؤں کے سستے ہونے کو کسی ملک میں لوگوں کی قوت خرید کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے ۔ انھوں نے کہا اس کے لیے بہت تحقیق کی ضرورت ہے اور اس لیے ایک جملے میں نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے ہاں دوائیں سستی ہیں۔ شاہد کے مطابق پاکستان میں دوائیں سستی مل جاتی ہیں لیکن وہ دوائیں جو درآمد کی جاتی ہیں ان کہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ مثلاً کینسر کی دوائیں اور کتے کے کاٹنے کی ویکسین پاکستان میں بہت مہنگی دستیاب ہیں۔
پبلک ہیلتھ کے شعبے کےماہر ڈاکٹر سلمان اوٹھو نے اس سلسلے میں کہا کہ یہ کہہ دینا کہ پاکستان میں ساری ادویات سستی ہیں صحیح نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کچھ ادویات سستی ہیں تو اسی طرح انڈیا میں بھی پاکستان کےمقابلے میں کچھ دوسری ادویات سستی ہیں، ادویات کے مہنگے اور سستے پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اوٹھو نے کہا کہ اصل میں دوا کی قیمت وہ سالٹ متعین کرتا ہے جو درآمد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے اگر یہ سالٹ چین سے درآمد کیا جا رہاہے تو یہ لازمی طور پر اس سالٹ سے سستا ہوگا جو یورپ سے درآمد کیا جاتا ہے۔ اس لیے مختلف ممالک سے منگوائے گئے سالٹ کی قیمت کسی دوا کی قیمت تعین کرتی ہے۔
شکیل بیگ نے پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کے سستا ہونے کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ کمپنیاں اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھاتی رہتی ہیں اور جب ان پر کوئی کارروائی ہوتی تو وہ عدالتوں سے سٹے آرڈرز حاصل کر لیتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سن دو ہزار انیس میں دوا ساز کمپنیوں نے قیمتیں بڑھائیں اور جب حکومت کے کہنے پر یہ اضافہ واپس لیا گیا تو صارفین سے لیا گیا اضافی پیسہ واپس نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی سابقہ وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ نے اس سلسلے میں کہا کہ ادویات کی قیمتیں پراڈکٹ ٹو پراڈکٹ دیکھنے کی ضرورت ہے، ان کی لاگت کا تجزیہ ہو اور پھر پرائس مقرر کی جانی چاہیے۔ انھوں نے کمپنیوں کے جانب سے شکایات کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک کمپنی ایک دوا کا خام مال سو ڈالر پر منگواتی ہے کچھ دنوں بعد وہی خام مال پچاس ڈالر پر مل رہا ہوتا ہے تو یہ کمی صارفین تک منتقل نہیں ہوتی۔

سن دو ہزار انیس میں دوا ساز کمپنیوں نے قیمتیں بڑھائیں اور جب حکومت کے کہنے پر یہ اضافہ واپس لیا گیا تو صارفین سے لیا گیا اضافی پیسہ واپس نہیں کیا گیا
دوا سازی کے شعبے کے ماہر ارشد رحیم نے ادویات کی قیمتوں کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا بدقسمتی سے یہ تجارتی سے زیادہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے اور حکومتیں اس پر کوئی واضح قدم اٹھانے سے کتراتی ہیں۔ انھوں نے کہا ہر کاروبار کی طرح دوا سازی کے شعبے میں بھی پیداواری لاگت ہے۔ جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو دوا سازی کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کا خام مال درآمد کیا جاتا ہے تاہم یہاں پچاس سال سے ایک گولی کی قیمت ایک روپیہ ہی مقرر کی گئی ہے جس کی پیداواری لاگت چاہے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔
شاہد محمود نے بھی ادویات کی قیمتوں کو ایک سیاسی معاملہ قرار دیا اور کہا کہ حکومتیں اس پر فیصلہ لینے سے کتراتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ساتھ قومی احتساب بیورو کی جانب سے کسی کارروائی کے خوف سے بھی حکومت یہ کرنے کے گھبراتی ہے جس کی ایک مثال موجودہ تحریک انصاف حکومت میں صحت کے وزیر عامر کیانی تھے جب ادویات کی قیمتیں بڑھانے کی وجہ سے انہیں وزارت سے ہاتھ دھونے کے ساتھ قومی احتساب بیورو کی جانب سے کاروائی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کی سابقہ وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ نے اس سلسلے میں کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ جب ادویات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اس پر شور اٹھتا ہے۔ انھوں نے کہا دوا زندگی بچانے والی چیز ہے اس لیے اس کی قیمت کو مارکیٹ فورسز پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ انھوں نے کہا ادویات کی قیتموں کو ریگولیٹ کیا جانا چاہیے تاکہ ان کی قیمت عام افراد کی پہنچ سے باہر نہ جائے۔؛
عائشہ نے کہا اگر حکومت تنقید سے گھبرا کر ایک ایسی پالیسی نہیں دے گی کہ جس میں کنزیومر پرائس انڈیکس کے مطابق قیمتیں نہیں بڑھیں گی تو اس سے دوا ساز صنعت کو نقصان ہو گا۔