
نئے پاکستان میں روز پرانے تماشے ہوتے ہیں اور بحیثیت مجموعی ہم پہلے بھی تماشائی تھے اور اب بھی تماشائی۔ قانون بنانے والی اکائی۔ قانون پر عملدرآمد کے داعی اور میڈیا والے بھائی۔ سب کے سب تماشائی۔
گوجرانوالہ میں پولیس کو مدد کے لیے بلانے والی لڑکی کی پوری فیملی سب نے دکھائی۔ اے ایس آئی کے ریپ کرنے کی جھوٹی کہانی خود پولیس نے لڑکی کے محلے میں کھڑے ہو کے رپورٹروں کو سنائی،،، اور میڈیا نے وہ کارروائی بھی ٹی وی پر دکھائی۔ اتنے دنوں میں نہیں دکھائی تو کسی نیوز چینل نے ملزم اے ایس آئی کی شکل نہیں دکھائی۔ اور چار دن کے تماشے کے بعد تفتیش کرنے والوں کے مطابق ہے لڑکی ہی ہے قصور وار قرار پائی۔ تازہ خبر یہ ہے بھائی کہ ملزم کے پیٹی بھائیوں نے سچی سچی بتا دیا ہے کہ لڑکی سفید جھوٹ بول رہی ہے۔ سو یہ تماشہ ختم ہوا اور کراچی کلفٹن ریپ والا تماشہ شروع ہو گیا۔
پہلے تو شکایت نہیں آئی ۔ پھر شکایت آئی تو پولیس گینگ ریپ کے ملزموں تک تو ابھی تک نہیں پہنچی، لیکن میڈیکل رپورٹ کرا کے اس نتیجے پر پہلے ہی پہنچ گئی کہ لگتا ہے کہ لڑکی نے بازو پر زخم خود لگایا۔ پولیس نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ لڑکی واقعے کہ بعد پبلک ٹرانسپورٹ سے خود گھر کیسے چلی گئی۔ شائد وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ گینگ ریپ ہوا تھا تو لڑکی کو ایمبولینس کے ذریعے اسپتال نہ گئی ہوتی۔ آج کراچی پولیس کو لڑکی کے پبلک ٹرانسپورٹ پر جانے پہ اعتراض ہے اور وہاں سی سی پی او لاہور کو خاتون کے اپنی گاڑی میں اکیلے جانے پر اعتراض،،، مجھے ان دونوں اعتراضات پر اعتراض ہے اور اس سارے فرسودہ سسٹم پر بھی، جس میں کمزور و غریب صرف تماشہ ہے ،،، طاقتور تماشہ باز اور باقی سب تماشائی۔ بہت ہو گیا بھائی۔
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے